Monday, February 16, 2015

چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں ، شرارے میں


چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں ، شرارے میں

جھلک تیری ہو یدا چاند میں، سورج میں، تارے میں

بلندی آسمانوں میں، زمینوں میں تری بستی
رونی بحر میں، افتاد گی تیری کنارے میں

شریعت کیوں گریبان گیر ہو ذوق تکلم کی
چھپایا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں

جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں، پھول میں ، حیواں میں، پتھر میں، ستارے میں

مجھے پھونکا ہے سوز قطرہ اشک محبت نے
غضب کی آگ تھی پانی کے چھوٹے سے شرارے میں

نہیں جنس ثواب آخرت کی آرزو مجھ کو
وہ سوداگر ہوں، میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں

سکوں نا آشنا رہنا اسے سامان ہستی ہے
تڑپ کس دل کی یارب چھپ کے آبیٹھی ہے پارے میں

صدائے لن ترانی سن کے اے اقبال میں چپ ہوں
تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فرقت کے مارے میں
 



No comments:

Post a Comment